سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں 'بی' کلاس تو دی گئی ہے لیکن ان کے بقول وہ سہولتیں نہیں دی گئیں جن کے وہ متقاضی ہیں۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں مجرم قرار پانے والے میاں نواز شریف نے یہ شکوہ اپنے ان چند قریبی لوگوں کے ساتھ کیا ہے جنھوں نے گذشتہ چند روز میں ان سے ملاقاتیں کی ہیں۔
میاں نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو قید تنہائی میں تو رکھا ہی گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُنھیں ایک دوسرے کے لیے پیغام رسانی کی بھی اجازت نہیں ہے۔
اڈیالہ جیل کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ میاں نواز شریف نے متعدد بار جیل کے حکام سے کچھ تحریر کرنے کے لیے کاغذ اور قلم مانگا ہے لیکن جیل کے حکام نے یہ مواد فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اہلکار کے مطابق ڈپٹی سپرینٹینڈنٹ سطح کے دو افسران نے اس بارے میں نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے اور کہا ہے کہ ان کا استحقاق ہونے کے باوجود وہ اُنھیں کاغذ اور قلم فراہم نہیں سکتے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، جاوید ہاشمی اور شیخ رشید کو جب مختلف عدالتوں کی طرف سے سزا سنائی گئی تھی تو اُنھوں نے اسیری کے دوران کتابیں بھی لکھی تھیں اور کاعذ اور قلم اور دیگر مواد جیل کی انتظامیہ نے ہی فراہم کیا تھا۔
اڈیالہ جیل کے اہلکار کا کہنا تھا کہ جیل کے اعلیٰ حکام کے ساتھ کام کرنے والے اردلیوں کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے جبکہ جیل حکام کی نقل وحرکت کے علاوہ ان کے زیر استمال موبائیل فون کو بھی مانیٹر کیا جارہا ہے کہ وہ ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد کس سے ملتے ہیں اور کس سے ٹیلی فونک رابطے میں رہتے ہیں۔
اہلکار کے مطابق سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو الگ الگ آفر کی گئی تھی کہ اُنھیں سہالہ ریسٹ ہاؤس میں منتقل کردیا جائے گا لیکن اُنھوں نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ جہاں بھی رہیں گے ایک ساتھ ہی رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیے
اہلکار کے مطابق 'بی' کلاس کی سہولتیں کسی حد تک سابق وزیر اعظم کو فراہم کی گئی ہیں جبکہ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو یہ سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں۔
اہلکار کے بقول سابق وزیر اعظم کو ایک عدد اخبار بھی روزانہ فراہم کیا جاتا ہے تاہم یہ اختیار جیل انتظامیہ کے پاس ہے کہ وہ کونسا اخبار مجرم نواز شریف کو پڑھنے کے لیے دیتے ہیں۔
میاں نواز شریف سے ملاقات کرکے آنے والی وکلا کی ٹیم میں شامل ایک وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ جب سنیچر کے روز ان کی میاں نواز شریف سے ملاقات ہوئی تو اُنھوں نے بتایا کہ جیل کی انتظامیہ نے اُنھیں ایک عدد ٹی وی فراہم کیا ہے جو کہنے کو تو کلر ٹی وی ہے لیکن اس کے رنگوں کا پتہ نہیں چلتا اور نہ ہی وہاں پر کوئی چینل آتا ہے۔
اس وکیل کے بقول سابق وزیر اعظم نے جب جیل کے حکام سے کہا کہ ٹی وی پر کچھ نظر نہیں آرہا تو ٹی وی کی ٹوینگ کی گئی جس کے بعد صرف دو چینل ہی آئے جن میں سے ایک پی ٹی وی ہوم اور دوسرا پی ٹی وی سپورٹس تھا۔
یہ بھی پڑھیے
اس وکیل کے بقول میاں نواز شریف نے جب جیل کے اہلکار سے پوچھا کہ کوئی اور چینل بھی ہے جس پر اہلکار کا کہنا تھا کہ 'سر صرف پی ٹی وی ہوم اور پی ٹی وی سپورٹس کی اجازت ہے۔'
سابق وزیر اعظم کے بقول اس ٹی وی کی ریسپشن انتی خراب ہے کہ اس سے آنکھیں متاثر ہوتی ہیں۔
پی ٹی وی ہوم پر ڈرامے اور کھانا بنانے کے پروگراموں کے علاوہ کچھ مذہبی پروگرام بھی دکھائے جاتے ہیں۔
میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی احتساب عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں 25 جولائی سے پہلے سماعت کے لیے مقرر کی جاتیں تو نگراں حکومت کبھی بھی مجرمان کے خلاف احستاب عدالت کی کارروائی اڈیالہ جیل میں کرنے کا نوٹیفکیشن واپس نہ لیتی۔
اُنھوں نے کہا کہ نگراں حکومت کا یہ بیان مضحکہ خیز ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ اُنھوں نے آرٹیکل 10 اے کو سامنے رکھتے ہوئے نواز شریف کے خلاف دیگر ریفرنسز کی سماعت کھلی عدالت میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ فیئر ٹرائیل سے متعلق یہ آرٹیکل آئین کا اس وقت بھی حصہ تھا جب سابق وزیر اعظم کے خلاف دیگر دو ریفرنسز کی سماعت اڈیالہ جیل میں کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔
Tags
Latest News