حسن اور حسین نواز نے پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کرلیا

حسن اور حسین نواز نے پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کرلیالاہور: (11 ستمبر 2018) سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹوں حسن اور حسین نواز نے اپنی والدہ بیگم کلثوم نواز کی کی تدفین کیلئے پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔سابق وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کی قانونی مسائل کے باعث پاکستان واپسی پر کشمکش جاری تھی اور اب خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں نے پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔حسن اور حسین نواز کے خلاف نیب میں متعدد ریفرنسز دائر ہیں اور دونوں کو اشتہاری بھی قرار دیا جاچکا ہے اس لیے اگر دونوں واپس آئے تو قانون کے مطابق انہیں گرفتار کرنا ہوگا۔ البتہ اگر حفاظتی ضمانت دیدی جائے تو پھر گرفتاری عمل میں نہیں لائی جائے گی۔حکومت کی جانب سے اس حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا جس کے بعد حسن اور حسین نواز نے اپنی والدہ بیگم کلثوم نواز کی تدفین میں شرکت کیلئے پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو پے رول پر رہائی دی جائیگیذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو پے رول پر  رہائی دے دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق چیف کمشنر وزارت داخلہ کی مشاورت سے تینوں سزا یافتہ قیدیوں کو پے رول پر رہا کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ تینوں سزا یافتہ قیدیوں کو کلثوم نواز کے جنازے اور تدفین میں شرکت کی اجازت دی جائے گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کے وکیل کی جانب سے باضابطہ درخواست کی روشنی میں رہائی کی اجازت ملے گی۔پاکستانی کمیشن کو احکامات موصولبیگم کلثوم نواز کی میت پاکستان منتقل کرنے کیلئے پاکستانی کمیشن کو احکامات موصول ہوگئے ہیں۔ذرائع کے مطابق پاکستانی ہائی کمیشن کا عملہ ہارلے اسٹریٹ کلینک پہنچ گیا ہے اور ایک افسر کو شریف خاندان کی معاونت کیلئے مقرر کردیا گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ قانونی تقاضے پورے ہونے پر بیگم کلثوم نواز کی میت کل شام تک پاکستان منتقل کرنے کے انتظامات مکمل کرلیے جائیں گے۔نون لیگ کی سیاسی سرگرمیاں تین روز کیلئے معطلدوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے بیگلم کلثوم نواز کے انتقال پر تین روز کیلئے سیاسی سرگرمیاں معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ خواجہ عمران نذیر کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو کم از کم ایک ہفتے کے پے رول پر رہائی ملنی چاہیے۔سابق وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر لیگی کارکنان غم سے نڈھال ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے تین بار خاتون اول رہنے والی بیگم کلثوم نواز کی جدائی کے غم میں تین روز کیلئے سیاسی سرگرمیاں معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔یہ ویڈیو دیکھنے کیلئے پلے کا بٹن دبائیےمسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ عمران نذیر نے بیگم کلثوم نواز کو ایک نڈر اور بے باک خاتون قرار دیا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کلثوم نواز کی میت کو پاکستان لاتے ہوئے دو یا تین دن لگ سکتے ہیں تاہم نواز شریف کو کم از کم ایک ہفتے کیلئے پے رول پر رہائی دی جائے۔سابق وزیر تجارت اور (ن) لیگی ایم این اے پرویز ملک نے بیگم کلثوم نواز کے انتقال کو پاکستان کیلئے بہت بڑا نقصان قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کلثوم نواز نے ڈکٹیٹر کے دور میں کامیاب تحریک چلائی۔ ہماری خلاف ظلم اور زیادتی کی جارہی ہے۔لیگی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ شہبازشریف میت لینے کیلئے لندن جائیں گے جبکہ حسن اور حسین نواز کی پاکستان واپسی کیلئے کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔سابق خاتون اول کی سوانح حیابیگم کلثوم نواز نے یکم جولائی 1950ء کو اندورن لاہور کے کشمیری گھرانے میں حفیظ بٹ کے ہاں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مدرستہ البنات سے حاصل کی، جبکہ میٹرک لیڈی گریفن اسکول سے کیا۔انہوں نے ایف ایس سی اسلامیہ کالج سے کیا اور اسلامیہ کالج سے ہی 1970ء میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ ادب سے گہرا لگاؤ ہونے کے باعث انہوں نے 1972ء میں فارمین کرسچیئن کالج سے اردو لٹریچر میں بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔ انہوں نے اردو شاعری میں جامعہ پنجاب سے ایم اے کیا۔ کلثوم نواز نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی تھی۔دو اپریل 1971ء کو بیگم کلثوم کے ہاتھوں میں مہندی اور نواز شریف کے ماتھے پر سہرا سجا اور دونوں نے زندگی کے نئے سفر کا آغاز کیا۔نوازشریف اور بیگم کلثوم نواز کے دو بیٹے حسن اور حسین نواز، جبکہ دو بیٹیاں مریم نواز اور اسماء نواز ہیں۔نوازشریف کے پہلی مرتبہ 6 نومبر 1990ء کو وزیراعظم کا منصب سنبھالنے پر بیگم کلثوم نواز کو خاتون اول بننے کا اعزاز حاصل ہوا جو 18 جولائی 1993ء تک برقرار رہا۔وہ 17 فروری 1997ء کو دوسری مرتبہ خاتون اول بنیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹ دیا اور انہیں بھیج دیا گیا۔نواز شریف سے عہدہ چھینا تو جانثار فصلی بٹیروں نے بھی آشیانے بدل لیے۔ امور خانہ داری نمٹانے والی خاتون بیگم کلثوم نواز کو تنہا اپنے شوہر کے حق میں آواز اٹھانا پڑی۔انہوں نے نہ صرف شوہر کی رہائی کیلئے عدالت سے رجوع کیا بلکہ مسلم لیگ (ن) کی ڈوبتی کشتی کو بھی سہارا دیا۔ انہوں 1999ء میں مسلم لیگ (ن) کی پارٹی کی قیادت سنبھالی، لیگی کارکنوں کو متحرک کیا اور جابر آمر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔ وہ 2002ء میں پارٹی قیادت سے الگ ہو گئیں۔جون 2013ء میں انہیں تیسری مرتبہ خاتون اول ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جو صرف 28 جولائی 2017ء تک ہی رہ سکا۔ 

Post a Comment

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

Previous Post Next Post