پاکستان الیکشن 2018: نئی پارلیمان میں فرینڈلی یا ایک منقسم حزب اختلاف؟

اپوزیشنپاکستان میں 25 جولائی کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچانے والی سیاسی جماعتیں کسی متحدہ اپوزیشن محاز یا لائحہ عمل پر اب تک متفق ہوتی دکھائی نہیں دی رہی ہیں۔
پاکستان میں 25 جولائی کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچانے والی سیاسی جماعتیں کسی متحدہ اپوزیشن محاز یا لائحہ عمل پر اب تک متفق ہوتی دکھائی نہیں دی رہی ہیں۔
دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے نئی پارلیمان میں حلف نہ اٹھانے جیسے مسئلے پر بھی کوئی اتفاق دکھائی نہ دیا۔ تو کیا یہ نئی پارلیمان میں ایک کمزور اور منقسم حزب اختلاف کے اشارے ہیں۔
25 جولائی کے انتخابات کے فوراً بعد بظاہر عجلت میں اسلام آباد میں طلب کی گئی کل جماعتی کانفرنس اُتنی ہی جلدی بغیر کسی فیصلے کے ختم ہو گئی۔ اب اطلاعات ہیں کہ دوسرا کل جماعتی اجلاس کل جمعرات کو طلب کیا جائے گا جس میں احتجاج کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں فیصلہ مبینہ دھاندلی سے متعلق وائٹ پپیر کے اجرا کے بعد کیا جائے گا۔
مسلم لیگ نون نے حلف نہ لینے کی تجویز کی پہلی اے پی سی میں ہی مخالفت کر دی تھی اور پیپلز پارٹی پہلے دن سے علیحدہ علیحدہ رہنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

الیکشن 2018: بی بی سی اردو کی خصوصی کوریج
الیکشن 2018 کے نتائج کا انٹرایکٹو نقشہ
تحریکِ لبیک کہاں سے آئی، متحدہ مجلسِ عمل کہاں گئی؟
’صرف وہی حلقے کھلوا لیں جہاں عمران خان جیتے ہیں‘
مبصرین کے خیال میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گیم بھی ان کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دیتی ہے۔ آخر نئی ممکنہ حزب اختلاف بظاہر اتنی منقسم کیوں ہے؟
معروف اینکر اور صحافی حامد میر تسلیم کرتے ہیں کہ تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کے درمیان چھوٹے امور پر اختلاف موجود ہیں۔
’اگر آپ الیکشن ہار جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ یہ کہیں کہ آپ نے حلف نہیں لینا۔ میرا خیال ہے ایم ایم اے کی تجویز کو نہ تو پیپلز پارٹی نے اور نہ ہی مسلم لیگ نے تسلیم کیا ہے۔ خود ان کی پارٹی کے اندر بھی یہ رائے ہے کہ آپ (مولانا فضل الرحمان) ضمنی انتخاب لڑ کر اسمبلی میں آئیں۔ اب وہ خود اپنی تجویز پر قائم نہیں ہیں۔‘
120 سے زیادہ نشستوں کے ساتھ حزب اختلاف قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو ایک سنگین چیلنج دے سکتی ہے۔ لیکن ابھی تک حزب اختلاف کی ایوان کے اندر یا باہر سٹریٹجی کوئی زیادہ واضح طور پر سامنے نہیں آئی ہے۔
شکست کے غصے سے چور جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے تاہم اے پی سی کے اختتام پر ایک خطرناک اشارہ یہ دیا کہ وہ ’چوری کے ووٹوں سے بنی پارلیمان‘ کو چلنے نہیں دیں گے۔
وہ دیگر جماعتوں کے تحفظات کے باوجود حلف نہ اٹھانے کی تجویز پر قائم ہیں البتہ ریاستی اداروں جیسے کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی مبینہ دھاندلی کی وضاحتیں طلب کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں منگل کو اپنی جماعت کے ایک اجلاس کے بعد انہوں نے سوال اٹھایا کہ جنرل باجوہ کے اس بیان سے کیا مراد تھی کہ ’ووٹ کے ذریعے دشمن سے بدلہ لیا گیا ہے‘۔

اپوزیشن نے حالیہ انتخابات کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے پارلیمنٹ سیمت ہر فورم پر اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے
ممکنہ حزب اختلاف کی اکثر جماعتیں اندرونی دباؤ کو سنبھالنے میں زیادہ مصروف دکھائی دیتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمان ایم ایم اے کے اندر کسی اختلاف کی تردید کر چکے ہیں جبکہ سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے لاہور میں پارٹی کو متحد رکھنے اور پارٹی میں فارورڈ بلاک بننے کی افواہوں کو رد کرنے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا، جس میں صوبائی نشستوں پر منتخب ہونے والے 129 میں سے اطلاعات کے مطابق 121 ارکان نے شرکت کی۔ اس بارے میں مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ تمام ارکان کو غیر سیاسی قوتوں کے دباؤ کا سامنا ہے لیکن وہ شہباز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

’ہم دیکھیں گے کہ یہ ایوان کیسے چلاتے ہیں‘
انتخابات میں جیپ چلی نہ شیر دھاڑا
خیبر پختونخوا سے پارٹی سربراہان کیوں ہار گئے؟
چھوٹی جماعتیں اپنی اپنی سطح پر احتجاج کے پروگرام بھی بنا رہی ہیں لیکن کسی مجموعی مہم کا ابھی اشارہ نہیں ملا ہے۔
سندھ میں توقعات سے کم کامیابی پانے والی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس یا جی ڈے اے نے تین اگست کو احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان صاحبزادہ پیر اعجاز اشرفی نے کہا ہے الیکشن 2018 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف 6 اگست کو احتجاجی مارچ کیا جائے گا۔
عمران خان

تحریک انصاف نے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر برتری حاصل کی ہے
البتہ الیکشن کمیشن نے کسی بھی دھاندلی کے تاثر کو رد کرتے ہوئے شکایتیں قانونی طریقے سے دائر کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ ممکنہ حزب اختلاف ایک طویل اور تفصیلی قانونی جنگ کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔
مسلم لیگ نون پر 2008 کی پارلیمان میں فرینڈلی اپوزیشن جبکہ پیپلز پارٹی پر 2013 کی پارلیمان میں یہ کردار ادا کرنے کا الزام رہا ہے۔
کیا نئی پارلیمان میں بھی فرینڈلی اپوزیشن ہی دیکھنے کو ملی گی؟ یا ایک منقسم حزب اختلاف کا امکان زیادہ ہے؟
بظاہر دونوں ہی امکانات تحریکِ انصاف کی آئندہ حکومت کے لیے موافق ہی دکھائی دیتے ہیں۔

Post a Comment

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

Previous Post Next Post